پولیس نے درجنوں شہری جیل بھیج دیے، ثبوت پیش کرنے میں ناکام، 70اہلکار کے وارنٹ گرفتار جاری
آئندہ سماعت پر شواہد پیش نہ کیے گئے تو مقدمات ختم کردیے جائیں گے ، عدالت ،سرکاری وکیل کی غفلت برتنے والے افسران کے خلاف کارروائی کی |
کراچی: پولیس نے اپنی نام نہاد کاردگردی اجاگر کرنے کیلیے درجنوں شہریوں کو پولیس مقابلوں اور اقدام قتل کے مقدمات میں ملوث کرکے جیل بھیجوادیا لیکن ملزمان کے خلاف کوئی ثبوت استغاثہ کے دفتر میں پیش کرنے میں ناکام ہوگئی ہے۔
عدالتوں نے50 سے زائد ملزمان کے مقدمات ختم کرنیکا عندیہ دیا ہے اور اس حوالے سے استغاثہ کو آخری موقع دیا ہے عدالتوں نے مقدمات کی تفتیش پر مامور اور مقدمات کے گواہ 70 پولیس افسران اور اہلکاروں کو غفلت لاپروائی اور عدالتی حکم عدولی پر گرفتار کرنے کا حکم دیا ہے، پولیس جرائم پیشہ ملزمان کیخلاف آپریشن کی آڑ میں کارگردگی دکھانے کیلیے شہریوں کی گرفتاریاں پولیس مقابلوں، اقدام قتل اور اسلحہ ایکٹ کے تحت ظاہر کرتی ہے، تاہم پولیس ان مقدمات کے ثبوت اور شواہد استغاثہ کو فراہم کرنے میں ناکام ہے جس سے استغاثہ کو کو عدالتوں میں مقدمات کی پیروی میں دشواری اور شرمندگی کا سامنا ہے پولیس افسران اور اہلکار مقدمات درج کرکے پولیس مقابلوں اور اقدام قتل کے الزامات عائد کرکے گرفتار ملزمان کے خلاف چالان تو جمع کرادیتے ہیں لیکن شواہد اور ثبوت فراہم کرنے کیلیے دوبارہ عدالتوں میں پیش نہیں ہوتے جس سے مقدمات التوا کا شکار ہیں اور تفتیشی افسران اور اہلکاروں کی شواہد پیش کرنے میں غفلت اور لاپروائی برتنے پر ملزمان ضمانت پر رہا ہورہے ہیں۔پولیس کی اپنی نام نہاد کارگردگی دکھانے کے لیے درج کیے گئے مقدمات کے باعث عدالتوں پر کریمنل مقدمات کا بوجھ بڑھ گیا ہے اور کئی مقدمات التوا کا شکار ہورہے ہیں، ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج غربی عبدالنعیم میمن کی عدالت میں 2 ملزمان کو پولیس مقابلے میں گرفتاری ظاہر کرکے پیش کیا گیا ملزمان نے عدالت کو بتایا کہ انھیں رینجرز نے گرفتار کیا لیکن پولیس نے انھیں جیل بھجوادیا تفتیشی افسر سے گرفتاری اور مقابلے کے شواہد طلب کیے گئے تو پولیس افسر نے کہا کہ وہ لاعلم ہے کہ مقابلہ کب اور کس نے کیا فاضل عدالت نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے ملزمان کو رہا کردیا ہے، موچکو، پیر آباد ، منگھو پیر، سعید آباد، سائٹ بی، اورنگی ٹائون ، اقبال مارکیٹ ، سائٹ اے ،گلشن معمار ،ماڑی پور اور مومن آباد کے تھانوں نے کارگردگی دکھانے کیلیے50 سے زائد شہریوں کو پولیس مقابلوں،اقدام قتل اور اسلحہ ایکٹ کے
الزامات میں گرفتار کرکے پولیس مقابلے اور اسلحہ کی برآمدگی کا دعویٰ کیا تھا۔
تفتیشی افسران 2 سے 3 برس گزر جانے کے باوجود گرفتار شہریوں کے خلاف شواہد پیش کرنے میں ناکام ہیں جس پر اسسٹنٹ سیشن جج غربی ایاز مصطفی جوکھیو نے ملزمان کے خلاف زیر التوا مقدمات چلانے اور سرکار کی پیروی کیلیے پراسیکیوٹر سید شمیم احمد کو طلب کیا اور مقدمات چلانے کا حکم دیا تاہم سرکاری وکیل نے عدالت میں انکشاف کیا کہ پولیس افسران نے پولیس فائل، کیس پراپرٹی ، کریمنل ایگزامینر رپورٹ ، ایف ایس ایل رپورٹ ، فائنل ایم ایل او رپورٹ ، پولیس پارٹی کی تھانے سے روانگی اور واپسی روزنامچے کی انٹری فراہم نہیں کی ان شواہد کے بغیر وہ ملزمان کے خلاف مقدمات چلانے اور فاضل عدالت میں شواہد پیش کرنے سے قاصر ہیں اور عدالت سے استدعا کی کہ انھیں وقت دیکر غفلت ولاپروائی اور شواہد فراہم نہ کرنے والے پولیس افسران کے خلاف سخت عدالتی کارروائی کی جائے۔
فاضل عدالت نے کہا کہ آئندہ سماعت پر شواہد پیش نہ کیے گئے تو تمام ملزمان کے مقدمات ختم کرکے انھیں بری کردیا جائے گا فاضل عدالت نے وکیل سرکار کی استدعا پر مذکورہ تھانوں کے افسران لیاقت علی درس، سب انسپکٹرز محمد خالد، شبیر احمد ، خادم حسین ، محمد سلیم ، جاوید ، غلام مصطفی ، جمیل اختر ، پیر بخش ، محمد رفیق تنولی ، محمد اسلم بلوچ ، رشید خان ، غلام سبطین ، غلام رسول ، عبدالرزاق ، غلام علی ، عباس جنجوعہ ، اسلام الدین ، گلفراز ، محمد ہاشم بلو ، محمد سلیم وارثی ، اسسٹنٹ سب انسپکٹرز عبدالرحمن ، آزاد خان ، غلام اصغر شیخ ، آزاد خان ، ارباب علی ، منظور حسین شاہ ، بشیر احمد ، احسان کلہور، محمد انور ، محمد ایوب ، سید ارشد علی ، امان اﷲ ، محمد صدیق ، شریف اﷲ ، محمد اختر ،عبدالرزاق ، اورنگ زیب ، منظور احمد ، محمد یوسف ، ارباب علی ، ایچ سی ، پرویزلودھی ، عبدالولی ، علی محمد ، رضا محمد ، صدرالدین ، تقی محمد جبکہ اہلکار سپاہی عبدالسلام، فضل نواب ، امتیاز ، نزاکت ، محمد عارف ، آفتاب حسین ، سجاد احمد ، خالد شاہ ، اشفاق ، حاکم علی ، اظہر حسین ، اشرف ، عبدالمجید ، محمد اسلم غلام رسول ، عبدالرحیم شاہ ، غلام یاسین ، غلام ربانی اور دیگر کے علاوہ ایم ایل اوز ، انچارچز رپورٹ ایف ایس ایل کے ناقابل ضمانت وارنٹ جاری کرتے ہوئے انکی گرفتاری کا حکم دیا ہے اور پراسیکیوٹر کو بھی مذکورہ پولیس افسران اور اہلکاروں کے خلاف اعلیٰ افسران کو تحریری طور پر آگاہ کرنے کی ہدایت کی ہے۔
0 comments:
Post a Comment